ازدواجی زندگی کے مسائل اور حل

 


کچھ لوگ کہتے ہیں شادی کے بعد خواتین ماسی بن کر پھرتی ہیں...

تو ان لوگوں سے مجھے یہ کہنا ہے کہ آپ نے شادی کسی ماڈل سے تو نہیں کی...
ظاہر ہے جس لڑکی سے شادی کی ہے... اس نے سال کے اندر اندر بچہ بھی پیدا کرنا ہے. یہ پریشر بھی اسی کی جان پر ہے..
  پھر بچے کے بعد اس کے جسمانی خد و خال میں فرق بھی پڑنا ہے... یہ بھی اسی کو سہنا ہے...

بچہ رات کو روتا ہے تو اسے لے کر الگ کمرے میں بھی اسی نے جانا ہے... شاید ہی کوئی باپ بچے کے ساتھ رات بھر جاگتا ہو... یہ کام بھی ماں کو کرنا ہے

پھر صبح اٹھ کر آپ کے لیے ناشتہ اور دن بھر گھر کے کام بھی اسی کے سر پر ہیں
اسی حالت میں یعنی ہمارے سماج میں ڈلیوری کے بعد شاید ہی عورتیں بمشکل ایک ہفتہ آرام کرتی ہیں... اور گھر کا کام سٹارٹ کر دیتی ہیں...

جسمانی درد، تھکن اور چڑچڑا پن یہ ان کی زندگی کا مستقل زیور بن جاتا ہے... جسے لے لے کہ وہ پھر رہی ہوتی ہیں... اور کوئی بھی گھر کا فرد اس سے وہ زیور اتروا کر اسے ریلیکس کرنے کی کوشش نہیں کرتا، کہ بی بی اب تم تھوڑا سا ریلیکس کر لو، بہت ہو گئی...*. اور وہ اسی تھکن میں اپنی زندگی گزارتی ہیں ..
اور یہ تھکن جب آپ کی روح پر طاری ہو، تو آپ سے لپسٹک نہیں لگائی جاتی.... آپ آنکھوں میں کاجل لگا کر، کلائیوں میں بھر بھر کر چوڑیاں نہیں پہن سکتے...

اور نہ ہی لہرا کے، بل کھا کے، آپ اپنے شوہر کے آنے پر نئی نویلی دلہن گرل فرینڈ یا محبوبہ کا رول پلے کرتے رہتے ہیں

دیکھیں... یہ ہمارے گھروں کے بنیادی کام، انسان  کو نہیں مارتے
اپ کو جو چیز مارتی ہے ،وہ رویے ہوتے ہیں...

اگر ہمارے گھروں میں یہ رویے درست ہو جائیں تو آدھے مسئلے تو یہیں ختم ہو جائیں  گے...

دوسری طرف... زوجہ، آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے تیار ہو بھی جائے ، تو سب سے پہلے تو ساس کی نظر میں آ جاتی ہے، کہ بی بی سال سے اوپر ہو گیا ہے، لیکن ابھی تک تمہارے بناؤ سنگھار کے چونچلے نہیں گئے... تو آدھی لڑکیوں کی فیشن سنس تو وہیں مر جاتی ہے بھئی ...

تو ایسے میں... اگر آپ کو شکوہ ہوتا ہے کہ بیویاں تیار ہو کے نہیں بیٹھیں... تو ایسے میں شکوہ بنتا نہیں ہے

باقی ...کیا آپ نے کبھی اپنی اداؤں پر بھی غور کیا ہے، آپ کون سا عطر لگا کر باغوں میں گھما رہے ہوتے ہیں......
بات تو صرف احساس کی ہے

شوہر ایسا بنے جو بیوی کے لیے سہارا ہو، بوجھ نہ ہو۔
شادی کا مقصد سکون، محبت، اور رحمت حاصل کرنا ہے
اگر یہ تینوں چیزیں میسر نہ ہوں، تو عورت چاہے محل میں بھی رہے، وہ خوش نہیں رہ سکتی۔
بدقسمتی سے کچھ مرد جب ان کی بیویاں شکایت کرتی ہیں، تو کہتے ہیں:

تمہیں کھانا پینا مل رہا ہے، اور تم اچھے طریقے سے رہ رہی ہو، میں اور کیا کروں؟"*

یاد رکھیں، کھانا اور رہائش عورت کا بنیادی حق ہے، یہ کوئی احسان نہیں جسے بار بار جتلایا جائے۔
بیوی آپ کے ساتھ صرف روٹی کے لیے نہیں رہتی

بیوی آپ کی خاطر اپنا ملک، اپنا خاندان، اور اپنا کام چھوڑ سکتی ہے۔

وہ آپ کے ساتھ دور دراز جگہوں پر جا کر اجنبی بن سکتی ہے، لیکن صرف اس لیے کہ آپ اس کا سہارا بنیں گے۔

شوہر کا کردار

آپ کو چاہیے کہ آپ اس کے لیے سہارا، اور محبوب بنیں۔
جب وہ اپنے خاندان کو چھوڑ کر آتی ہے، تو اس کے دل میں یہ امید ہوتی ہے کہ آپ اس کی ہر ضرورت اور حفاظت کا ذریعہ بنیں گے۔

عورت کومحبت، توجہ، احترام، اور حوصلہ افزائی چاہیے۔

اس سے بات کریں، اس کی رائے کو اہمیت دیں، اور اس کی شخصیت کو کبھی کمتر نہ سمجھیں۔

عورت کبھی بھی طلاق کا مطالبہ نہیں کرتی جب تک کہ اسے محسوس نہ ہو کہ اس کا شوہر، جسے اس نے دنیا کے سامنے چنا، اس کے حقوق اور عزت کا خیال نہیں رکھ رہا۔

کسی دانا سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو شادی کے وقت کیا نصیحت کی؟
انہوں نے کہا:
"بیٹا، یہ عورت اپنے والدین، بھائی، اور بہن کو چھوڑ کر صرف تمہارے لیے آئی ہے، تو تم اس کے لیے سب کچھ بنو۔"

شوہر ایسا بنے جو بیوی کے لیے سہارا ہو، بوجھ نہ ہو۔

Post a Comment

0 Comments